لاہور(میڈیا پاکستان)ملک میں طلاق کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ان میں کئی جوڑے وہ بھی ہوتے ہیں جن کے درمیان طلاق وضع نہیں ہوتی لیکن کوئی انہیں کہہ دیتا ہے کہ چونکہ شوہر نے تین بار طلا ق دے دی ہے چاہے وہ کسی بھی حالت میں کہی ہو ،ان کے درمیان طلاق ہوگئی ہے ۔اس ابہام یا کم علمی کی وجہ سے لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں حالانکہ جید علما کرام کا کہنا ہے کہ جو انسان کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجس میں غصہ پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے اور اسکو جوش غضب میں یہ معلوم ہی نہیں پڑتا کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے تو معاملات کو سمجھنے کے بعد دیکھا جاسکتا ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں۔
اس ضمن میں ممتاز مفتی و عالم دین عبدالقیوم ہزاروی سے ایک خاتون نے پوچھا تھا کہ ان کے شوہر جو بلڈ پریشر کے مریض ہیں ،ان کا غصہ انکے قابو میں نہیں رہتے ،مارپیٹ بھی کردیتے ہیں اور اسی حالت میں ایک بار انہوں نے طلاق دے دی تھی جس پر عبدالقیوم ہزاروی نے فتویٰ آن لائن میں خاتون کو جواب دیا تھا کہ غصہ کی جو حالت آپ نے بتائی ہے اس میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ، اس پر قانون لاگو نہیں ہوتا، لہٰذا شرعاً طلاق نہیں ہوئی، توبہ کریں اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔
مفتی عبدالقیوم ہزاروی نے تاویل دی کہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ فقہاء غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں ،پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے۔ یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔عبدالقیوم ہزاروی نے فقہی نقطہ نظر سے غصہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔
دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔
تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔
عبدالقیوم ہزاروی علامہ شامیؒ کے حوالہ سے بتایا کہ ان کا کہنا ہے کہ جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلاہوتا ہے اور قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے ’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔(سورہ النور)
مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔ علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا، مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘
حضر ت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا‘‘۔